غلام نبی آزاد نے 370 اور 35 اے کو ہٹانے کےلئے پارلمنٹ میں ووٹ دیا، میں ریکارڈ پیش کرسکتا ہوں
ہم کو اپنوں نے لوٹا ،غیروں میں کہاں دم تھا ، اس کےلئے اگر لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ حق بہ جانب ہیں
۔دفعہ 370 اور 35 اے کو واپس لانا اب ناممکن ہے اور جو لیڈران اس حوالے سے بلند بانگ دعوے کررہے ہیں وہ عوام کو گمراہ کررہے ہیں البتہ سٹیٹ ہوڈ کی بحالی ممکن ہے اسکے لئے میں تمام سیاسی پارٹیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ آؤ میرا ساتھ دیں کیونکہ ہماری پارٹی صرف اسکو واپس لانے کی قابل ہے جبکہ انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی نوکریوں کی بحالی اور زمینوں کے تحفظ کے لئے ہم نے ہی لڑا اور کامیابی بھی حاصل کی۔جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلی غلام نبی آزاد نے دفعہ 370 اور 35 اے کو ہٹانے کے لئے پارلمنٹ میں ووٹ دیا جبکہ تقریروں اور سیاسی بیانات سے یہ چیزیں اب واپس نہیں آسکتی ۔پی اے جی ڈی لوگوں کا استعمال کررہی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ لوگوں کے سامنے انکے اصل چہرے بے نقاب ہوچکے ہیں اب وہ اپنی بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں ۔
ان باتوں کا اظہار اپنی پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیر سید الطاف بخآری نے کے این ایس کے مدیر اعلی محمد اسلم بٹ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کے دوران کیا ۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر میں لوگ اس وقت شدید پریشانیوں میں مبتلا ہیں اور یہاں کا نوجوان روز گار کے حوالے سے شدید ترین مشکلات اور مصائب سے گزررہا ہے کیونکہ اب نئی ایک ٹرینڈ شروع کردی گئی ہے کہ امتحانات کے نتائج آنے کے بعد اسے منسوخ کیا جاتا ہے جبکہ منتخب امیدواروں کی جانچ میں کئی سال لگتے ہیں ۔انکا کہنا تھا کہ سیاحتی سیزن کی کامیابی کے آرڑ میں گزشتہ کئی مہینوں سے لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور اگر اب حالات ٹھیک ہیں تو انہیں رہا کرنا چاہے ۔اپنی پارٹی کے سربراہ نے سابق کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پارلمنٹ میں دفعہ 370 اور 35 اے کو ہٹانے کےلئے ووٹ دیا اور بعد میں جب انہوں نے 5اگست 2019 کی پوزیشن بحال کرنے کی بات کی تھی تو میں نے اسی وقت انہیں بتایا کہ "چناب میں بہت پانی بہہ گیا ہے” اور "آپکو راجیہ سبھا میں جموں کشمیر کی اسمبلی نے بیجا تھا لیکن آپ نے اسی” اسمبلی کو چھرا گھونپا ". اور وہاں آپ نے "مودی صاحب ” کے خلاف تقریر کی لیکن ووٹ "مودی صاحب کو ہی دیا ".انکا مزید کہنا تھا کہ آزاد صاحب آئے اور میرے ساتھ debate کریں اور میں انکو پارلمنٹ کا ریکارڈ پیش کرسکتا ہوں کہ انہوں نے کیسے 370 کو ہٹانے کےلئے ووٹ دیا ۔تاہم انہوں نے کہا کہ سیاسی بیان بازی سے یہ چیزیں واپس نہیں آسکتی ہیں حالانکہ پارلمنٹ کے باہر یہاں کے کئی راجیہ سبھا ممبران نے قمیضیں بھی پھاڑ دی تھی، کیا پھر 370 کی منسوخی کو کوئی روک سکا؟ ۔پی اے جی ڈی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ پارٹیاں تو 370 اور 35 سے کو واپس لانے کےلئے نکلی تھی کیا انہوں نے واپس لایا ؟پھر ڈی ڈی سی انتخابات میں لوگوں سے اس نام پر ووٹ بھی حاصل کئے ،پھر کیا ہوا ؟الطاف بخآری نے کہا کہ میں واضح کردیتا ہوں کہ کوئی "سرکار یا پارٹی دفعہ 370 اور 35 اے کو واپس نہیں لاسکتی ” اور جو سیاسی جماعتیں یہ دعوا کررہی ہے وہ لوگوں کو دھوکہ دے رہی ہیں اور جھوٹ بول رہی ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھ میں اور دوسری پارٹیوں میں یہ فرق ہے کہ میں جو مانگتا ہوں وہ ممکن ہے اور جو وہ مانگتے ہیں وہ ناممکن ہے ،جیسے ماضی میں آٹونامی،سلیف رول اور رائے شماری وغیرہ, کیا انہوں نے پھر یہ چیزیں لائی ؟ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کے این ایس کو بتایا کہ "الیکشن اور سٹیٹ ہوڈ” میں کوئی تعلق نہیں ہے اور مرکز نے کبھی نہیں کہا کہ الیکشن کے بعد ریاست کا درجہ بحال کیا جائے گا البتہ مرکز نے کہا حالات ٹھیک ہوجائے گے تو ریاست کا درجہ بحال کیا جائیگا ۔سیاسی پارٹیوں پر الزام لگاتے ہوئے الطاف بخآری نے کہا کہ "ہم کو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا "اور اگر لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ حق بہ جانب ہیں ۔اے ٹیم اور بی ٹیم کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ "جہلم میں اب بہت پانی بہہ گیا ہے "اور ماضی میں جنہوں نے بی جے پی کے ساتھ حکومتیں بنائی اور جنہوں نے پارلمنٹ میں انکے حق میں ووٹ دیا انکو جواب دینا ہوگا ۔اپنی پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ فاروق عبداللہ کو میں عزت کرتا ہوں، عمر عبداللہ ایک شریف النفس انسان ہے جبکہ محبوبہ میری بہین ہے لیکن جہاں وہ چھوٹ بولے گے وہاں میں ٹوکوں کا ۔غلام نبی آزاد کے خلاف بیان دینے پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ "میں روایتی سیاست دان نہیں ہوں اور میں سچ پر پردہ نہیں ڈال سکتا ہوں اور سچ یہ ہے کہ آزاد صاحب نے دفعہ 370 کی منسوخی پر پارلمنٹ میں ووٹ ڈالا ۔یہ پوچھے جانے پر کہ آزاد صاحب نے کہا کہ میں اسد الدین اویسی نہیں ہوں تو الطاف بخآری نے کہا کہ آزاد صاحب کو پھر اویسی کے رول کو ننگا کرنا چاہے تھا لیکن اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو پھر انہیں الزام نہیں لگانا چاہیے تھا ۔تاہم بخآری نے کہا کہ آزاد صاحب 50 سال سے دلی میں ہیں جبکہ جموں کشمیر کے لوگوں اور ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ جو ہوا اسکے لئے وہ برائے راست زمہ دار ہے، کیونکہ وہ مسلمانوں کی نمائندگی کررہا تھا ۔ جوڑ توڑ کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے اپنی جماعت کو سنبھالنا اچھی طرح آتا ہے اور ان لوگوں کو اپنی پارٹی کی فکر کرنی چاہیے اور میں جموں کشمیر کے لوگوں اور نوجوانوں کی بات کرتا ہوں اور اس حوالے سے لوگوں کا جو response مل رہا ہے یہ سچ کی جیت ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کشمیر نیوز سروس کو بتایا کہ دلی والوں کو لگتا ہے کہ انتخابات جموں کشمیر کے لوگوں کےلئے کوئی favour ہے لیکن ہم ایک جمہوری ملک کے ساتھ ہیں اور یہ ہمارا حق ہے جبکہ انہوں نے کہا کہ ناامیدی انکی actions کی وجہ سے ہے ،وہ الیکشن کو ٹال رہے ہیں اور ہم 4سال سے گورنر راج کے تحت ہیں جسکی وجہ سے یہاں کے لوگ مشکلات سے دو چار ہورہے ہیں ،ہمیں اپنی سرکار چنے کا موقعہ دیں پھر لوگوں کی مرضی ہے کہ وہ کن کو چنے گے ۔دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرنے پر انہوں نے کہا کہ جس طرح ہماری پارٹی کو لوگوں کا پیار مل رہا ہے تو اتحاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے تاہم انہوں نے کہا کہ لوگوں نے ہی ہمیں ہمت دے رکھی ہے اور عوام ہی اصل طاقت ہے ۔ایک سوال کے جواب میں سید الطاف بخآری نے کہا کہ "دلی کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں کرسکتا ہے ،جو ٹکراؤ کریں گے اسکو کجھ حاصل نہیں ہوگا” کیونکہ دلی سے ہی ہمیں ہر ایک چیز ملتی ہے اور مل سکتی ہیں تاہم انہوں نے یہ صاف کیا کہ اتنا بھی ساٹھ گانٹھ نہیں کرسکتے ہیں کہ خود ہی ختم ہو جائیں گے جیسے ہی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے ماضی میں کیا ۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پی اے جی ڈی لوگوں کو دھوکہ دے رہی ہے لیکن عمر عبداللہ تمام سیاسی پارٹیوں میں ایک سچا سیاست دان ہے اور انہوں نے 90 سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا جو اعلان کیا وہ حقیقت پر مبنی ہے اور انہیں سچ بولنے کی ہمت ہے ۔سید الطاف بخآری نے آخر پر عوام کو خبردار کیا کہ نئے سیاست دانوں سے ہوشیار رہیں،یہ لوگ نیا لباس بدل کر سیاست کرنے آئے ہیں ،یہ نئی بوتل میں پرانی شراب ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے یہاں حکومتیں گرائی ،کبھی یہ نسبندی کے ساتھ تھے اور کبھی ایمرجنسی کے ساتھ ،جبکہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے الحاق کروائے اور یہ اسی کانگریس پارٹی کے ہیں جنہوں نے دفعہ 370 کے حوالے سے 82 ترامیم کی اور جو کچھ جموں کشمیر میں آج تک ہوا یہ لوگ اسکے لئے زمہ دار ہیں ۔ مستقبل میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنے کے سوال پر الطاف بخآری نے کہا کہ جموں میں بی جے پی اور اپنی پارٹی کا Neck to Neck مقابلہ ہے اور اگر وہاں پر بی جے پی کسی سے ڈرتی ہے تو اپنی پارٹی سے ڈرتی ہے جبکہ کشمیر میں ہم پہلے ہی کافی مظبوط ہیں۔