کئی سیاسی سماجی اور مذہبی شخصیات نے کیا دکھ کا اظہار ۔۔۔۔
رونے والوں نے اٹھا رکھا تھا گھر سر پر مگر ۔۔۔
عمر بھر کا جاگنے والا پڑا سوتا رہا۔۔۔
الحاق خبر ۔۔۔۔۔۔سرکردہ تاجر اور انت ناگ ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک معزز شخصیت غلام رسول ملک پر پیر کے روز اس وقت پہاڑ ٹوٹ پڑا جب انکا چھوٹا فرزند ملک محراج مختصر علالت کے بعد اس دنیا سے کوچ کرگیا۔انکی عمر 48 سال کی تھی ۔پورے انت ناگ ضلع میں کہرام مچ گیا اور پورا ضلع سرگواری کی عالم میں ڈوبا رہا ۔دل دہلانے اور انتہائی تکلیف دہ صورت حال یہ ہے کہ صرف 2 ماہ کے دوران انکے دو بیٹے مختصر علالت کے بعد اس دنیا سے کوچ کرگئے اور دل کو تکلیف پہنچانے والی بات یہ ہے کہ بزرگی کی ان ایام میں انکو اپنے دو بیٹوں کے تابود کو کندھا دینا پڑا ۔ تفصیلات کے مطابق کہ ضلع انت ناگ کے ایک سرکردہ تاجر غلام رسول ملک کے چھوٹے فرزند ملک محراج پیر کے روز بعد دوپہر مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے ۔انکی عمر 48 سال کی تھی ۔مرحوم کو اشک بار آنکھوں سے انکے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا ۔ملک محراج کی صحت صرف ایک ماہ پہلے خراب ہوئی جس کے بعد انکو علاجہ معالجہ کےلئے پہلےصورہ میڈیکل انسٹچوٹ لیا گیا تاہم بعد میں وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کے ہمراہ ٹاٹا انسٹچوٹ مبئی روانہ ہوا اور ملک محراج وہاں ایک بڑی امید لیکر گیا تھا تاہم وہاں پر ڈاکٹروں نے انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے مریض کو منہ پر بتایا آپ کا علاج ممکن نہیں ہے جبکہ ساتھ ہی میں یہ بھی بتایا کہ آپ کس خطرناک بیماری میں مبتلا ہو جس کا اس وقت علاج ممکن نہیں ہے، جس کے بعد اسی وقت ملک محراج کی طبیعت بگڑ گئی اور اسکی برین ہیمرج
ہوئی اور وہ کوما میں چلا گیا۔ اسکے بعد جب انکو واپس گھر لایا گیا تو انکے جسم کا ایک حصہ بے کار ہوگیا تھا، وہ پیرالیسس کا شکار ہوگیا اور پھر کچھ ہی دن بستر اسیری پر رہنے کے بعد پیر کے روز بعد دوپہر وہ
داعی اجل کو لبیک کہہ گیا ۔ملک محراج نے ابتدائی تعلیم انت ناگ کے مقامی اسکولوں سے حاصل کی تھی اور بعد میں انہوں نے گورمنٹ ڈگری کالج انت ناگ میں سال 1992 سائنس مضامین میں گریجویشن مکمل کی جبکہ سال 1994-1995 میں انہوں نے کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ کمسٹری سے پوسٹ گریجویشن کی ڈگری مکمل کرلی جبکہ قریباً ساڑھے 3 سال تک ملک محراج شیخ العالم بائز ہوسٹل میں اپنے دوستوں کے رہا ۔مرحوم کا تعلق تجارت گھرانے سے تھا اور انہوں نے سرکاری نوکری کے بجائے اپنے نجی کاروبار کو ہی ترجیح دی ۔ملک محراج چند سال قبل بیرون ملک کویت روانہ ہوا جہاں پر وہ کئی برسوں تک رہائش پزیر رہا تاہم کئی سال قبل ہی وہ وطن واپس آیا اور یہاں پر اپنا کاروبار سنبھالا ۔دو ماہ قبل انکا برادر اکبر مختصر علالت کے بعد انتقال کرگیا تھا اور ملک محراج کے کندھوں پر مزید بوجھ پڑ گیا تاہم اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ملک محراج اپنے پیچھے دو کمسن بچیوں سمیت اپنے بزرگ ماں باپ کو چھوڑ کر چلا تو گیا لیکن جو زخم وہ دے کر گیا وہ انتہائی تکلیف دہ ہیں اور اس ناقابل تلافی نقصان کو پر کرنا یقینی طور پر ناممکن ہے ۔ میں اس وقت انتہائی تکلیف دہ صورتحال اور انتہائی ہمت کرکے ملک محراج کے متعلق یہ الفاظ لکھ رہا ہوں کیونکہ کالیج لیول سے لیکر یونیورسٹی تک ہم نے اکھٹے زندگی کا سفر طے کیا اور آج مجھے یہ یقین نہیں ہورہا ہے کہ میں یہ الفاظ اپنے قریبی دوست کے بارے میں لکھ رہا ہوں ۔بحرحال یہی دنیا کا دستور ہے اس حقیقت کو ہم کو تسلیم کرنی ہے ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس عطا کریں اور انکے بزرگ ماں باپ کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ملک محراج کے انتقال پر انکے دوستوں جن میں ریاض احمد سوپور ،غلام محی الدین سنور کلی پورہ ، نثار احمد دیلگام ،فیاض وانی شوپیان ،افتاب احمد دیوا شوپیان ،عبدل الرشید پنزگام،
طارق احمد انت ناگ ،
فاروق احمد بحرام صاحب ،ماجد سرینگر ،ہلال احمد میر شوپیان ،ڈاکٹر فاروق انت ناگ ،شازیہ امین اور نیلوفر قاعدری شامل ہیں نے زبردست دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے غمزدہ خاندان کے ساتھ تعزیت کی اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے دعا کی ۔تمام دوستوں اور کلاس فیلوز نے یک زبان ہوکر کہا کہ مرحوم ایک نیک، ملنسار، اور انسان دوست شخص تھا اور انکے چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا اس کو پر کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی ۔۔۔
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا۔۔۔۔۔۔